• Sun, 06 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

فتاوے: اولاد کی موجودگی میں بھائی بہن اور پوتے پوتیاں شرعاًوارث نہیں ہوتے

Updated: September 13, 2024, 3:44 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے:(۱) اولاد کی موجودگی میں بھائی بہن اور پوتے پوتیاں شرعاًوارث نہیں ہوتے (۲)وطن اور قصر نماز (۳) نماز جمعہ (۴) طلاق کا ایک مسئلہ۔

The obligation of Friday cannot be denied, instead of getting involved in any debate one should be concerned with encapsulating the blessings of this day. Photo: INN
جمعہ کی فرضیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کسی بحث میں الجھنے کے بجائے اس دن کی برکتوں کو سمیٹنے کی فکر کرنا چاہئے۔ تصویر : آئی این این

  والدین کا انتقال ہو چکاہے۔ ورثاء میں دو لڑکے، ایک لڑکی، ایک بھائی اور ایک بہن پانچ پوتے دو پوتی چھوڑے ہیں۔ ترکے میں سے کس کو کتنا ملے گا؟ انعام الحق، کلکتہ 
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق : اولاد کی موجودگی میں بھائی بہن اور پوتے پوتیاں شرعاً وارث نہیں ہوتے لہٰذا صورت مسئولہ میں حقوق مقدمہ علی الارث (تجہیز وتکفین کے مصارف، قرض اور جائز وصیت) کے بعد ایک لڑکی اور دو لڑکوں کے درمیان ترکہ کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ تمام جائیداد منقولہ و غیر منقولہ، نقدی اور زیورات سب کے پانچ سہام (حصے)بناکر ایک حصہ لڑکی کو اور دو دو حصے دونوں لڑکوں کو دیئے جائینگے۔ 
 نوٹ: اگر جائیداد مشترکہ ہو اور بہن بھائی کو ان کا حصہ نہ دیا گیا ہو تو انہیں ان کا حصہ دینے کے بعد ترکہ تقسیم ہوگا لیکن بصورت دیگر یعنی جائیداد مشترکہ نہ ہونے کی صورت میں پوتے پوتیوں کی طرح بھائی بہن بھی حصہ دار نہ ہوں گے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
وطن اور قصر نماز
 میرا وطن مظفر نگر ہے جہاں میرا گھر ہے، زمین اور باغ وغیرہ بھی ہیں لیکن میں پنجاب میں امامت کےفرائض انجام دیتا ہوں۔ الحمدللہ یہاں پربھی میرا اپنا ذاتی مکان ہے اور بچے بھی ساتھ رہتے ہیں۔ دونوں کا فاصلہ تقریباً ۴۰۰؍ کلومیٹر ہے۔ سفر کے درمیان جو نمازیں آئینگی ان کو قصر کروں گا یا پوری نماز پڑھوں گا؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔ حافظ عبد اللہ، پنجاب 
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: صورت مسئولہ میں اگر آپ نے وطن اصلی (مظفر نگر) کی وطنیت کو ترک نہیں کیا تو مظفر نگر اب بھی آپ کا وطن اصلی ہے لہٰذا وہاں پہنچنے پر آپ کو پوری نماز پڑھنی ہوگی لیکن اس صورت میں جبکہ مسافت سفر چار سو کلو میٹرہے سفر کے دوران جو نمازیں پڑھیں گے ان میں قصر ہوگا۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
نماز جمعہ 
  نمازِ جمعہ فرض ہے یا واجب؟ برائے مہربانی جواب مرحمت فرمائیں۔ محمد خالد، ممبئی
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: یہ سوال ایک عمومی غلط فہمی کی پیداوار ہے جس سے بعض مرتبہ اکا دکا اہل علم بھی متاثر نظر آتے ہیں، اس لئے جواب میں کسی قدر ٹفصیل کی ضرورت ہے۔ دراصل فرض اور واجب میں بڑا دقیق اور معمولی فرق ہے، عمل میں دونوں یکساں ہیں لیکن فرض کا ثبوت دلیل قطعی سے ہوتا ہے اور اس کے انکار پر کفر کا حکم ہوتا ہے جبکہ واجب کے ثبوت کے لئے دلائل میں ایسی قطعیت نہیں ہوتی اسی بناء پر اس کے منکر کو گمراہ اور فاسق کہاجاتاہے مگر اس پر کفر کا حکم نہیں ہوتا۔ اس معمولی فرق کے باوجود عمل میں یکسانیت کے پیش نظر فقہا ئے کرام نے بہت سے مقامات پہ فرض کی جگہ واجب کا اطلاق بھی کیا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں کتب فقہ میں موجود ہیں، مثلاً نماز اور زکوٰۃ کی فرضیت کے بیان میں الزکات واجبه اور الصلوات واجبه عام طور سے لکھا ملتا ہے۔ جمعہ کے بیان میں بھی بہت سے فقہاء کے یہاں الجمعه حق واجب لکھا نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ان حضرات کی ایک اصطلاح ہے جس سے فرضیت کا کسی پہلو سے انکار نہیں ہوتا۔ اس لئے جس طرح واجب لکھنے کے باوجود نماز روزہ اور حج کی فرضیت سے انکار ممکن نہیں اسی طرح جمعہ کی فرضیت سے انکار بھی متصور نہیں اس لئے آپ کے سوال کا جواب بھی یہی ہے کہ جمعہ فرض ہے نہ کہ واجب۔ اس کے علاوہ یہ بھی ملحوظ رہے کہ سال کے تمام ایام میں جن میں سال بھر میں واقع جمعہ کے ایام بھی ہیں، شریعت نے دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں مگر یہ کہیں نہیں ملتا کہ جمعہ کے دن صرف چار نمازیں فرض ہیں جبکہ جمعہ کی نماز واجب ہے۔ ایسا نہ قرآن کریم میں ہے نہ احادیث کریمہ میں حتی کہ کوئی ایسی ضعیف روایت بھی احادیث کے پورے ذخیرہ میں نہیں پانی جاتی جس میں جمعہ کو واجب کہا گیاہو۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
طلاق کا ایک مسئلہ
 ایک شخص نے اپنی بیوی سے غصہ میں دو مرتبہ کہا کہ میں نے تجھے فارغ کر دیا لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ اس کا جواب مرحمت فرمائیں کہ طلاق ہوئی یا نہیں ؟ عبد الغفور، میرٹھ
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: زوجین کے درمیان تفریق کے لئے لفظ طلاق کا استعمال کیا جائے تو اسے طلاق صریح کہا جاتاہے۔ اس کے علاوہ بھی متعدد الفاظ جو اس مقصد کے لئے مستعمل ہیں انہیں الفاظ کنائی (کنایہ) کہا جاتا ہے۔ ان میں عموماً نیت دیکھی جاتی ہے۔ نیت ہو تو طلاق واقع ہوتی ہے ورنہ نہیں، جبکہ ان میں الفاظ وہ بھی ہیں جن سے دلالت حال اور بعض سے مذاکرہ طلاق یا طلب طلاق سے بغیر نیت کے بھی وقوع طلاق کا حکم ہوتا ہے جس کی تفصیل کتب فتاویٰ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض الفاظ کنایہ علاقائی استعمال اور عرف کی بناء پر صریح مانے گئے ہیں جیسے عربی میں لفظ حرام کنایہ ہونے کے باوجود صریح مانا گیا ہے، اسی طرح ہمارے یہاں بعض علاقوں مثلا ً بہار وغیرہ میں فارغ خطی صریح طلاق کیلئے مستعمل ہے۔ عرف ہی کی بناء پر کئی الفاظ کے متعلق بر صغیر کے اکابر علماء کے فتاویٰ میں صریح یا کنایہ کا اختلاف موجود ہے۔ صورت مسئولہ میں شوہر نے تجھے فارغ کردیا دو مرتبہ کہا ہے تو میرے علم کے مطابق اس کا صریح کیلئے استعمال نہیں ہے اس لئے طلاق کی نیت ہو تو ایک طلاق بائن واقع ہوگی (الفاظ ِکنایہ متعدد ہوں تب بھی ایک بائن ہی کا حکم ہوتا ہے)۔ بائن ہونے کی صورت میں زوجین کی رضامندی سے کبھی بھی دوبارہ نکاح ممکن ہوگا۔ نوٹ اگر کسی علاقے میں یہ صریح کے طورمستعمل ہو تو دو طلاق کا حکم ہوگا لہٰذا شوہر دوران عدت رجوع کر سکتا ہے جبکہ صرف دو ہونے کی وجہ سے دونوں رضامند ہوں تو عدت کے بعد بھی دوبارہ نکاح ممکن ہوگا لیکن رجوع اور نکاح ثانی کے بعد شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہےگا جبکہ بائن کا حکم ہو تو دوبارہ نکاح کے بعد دو طلاق کا اختیار رہےگا۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK